*** زکوة عمل ***
السلام وعلیکم ورحمة الله وبركة!!!
قحط الرجال کا زمانہ ہےآج کے دورمیں سائیلین کم اور عاملین زیادہ ملتے ہیں گویا ہر شخص افلاطون زماں نظر آتا ہے. اسی لئے آج اس مضمون کو پیش کیا جا رہا ہے کہ زکوة كے حوالہ سے میرے ایک محترم بھائ نے سوال کیا تھافوری جواب نہ دے پایااپنی سستی ومصروفیت کی بنا پر دیری کیلیے احباب سے معذرت خواہ ہوں .
طریقہ زکوة بہ سلسلہ عملیات
جب تک کسی عمل کی زکوة ادا نہیں کی جاتی یا صاحب زکوة کی اجازت نہیں ہوتی تو عمل میں اثر پیدانہیں ہوتا ۔ اکثر احباب عملیات پڑھتے ہیں لیکن فائدہ نہیں ہوتاکتب بینی اورمطالعہ اچھا مشغلہ ہے مگرعملیات ڈاکٹری فیلڈ سے بھی نازک ہے جیسے کوئ ڈاکٹری کی کتاب پڑھ کراوپن ہارٹ سرجری نہیں کرسکتا ویسے ہی اس نازک فیلڈ میں ہے کہ آپ بغیر استاذ کی اجازت ومحنت وتجربہ کے عامل نہیں بن سکتے ہاں ایسے عامل وجہ بدنامی ضرور ہیں اس مقدس خدمت کے ۔ بعض احباب صاحب کتاب سے اجازت لیتے ہیں وہ اجازت تو دے دیتے ہیں لیکن اکثریت ان میں ایسی ہوتی ہے جنہوں نے خود بھی زکوة نہیں دی ہوتی اور بعض کتب بینی کے بعداپنے آپ کوعامل کامل سمجھ کراجازات کادائرہ ان عملوں کاوسیع سےوسیع ترکرتے جاتے ہیں جن عملوں کی خودبھی زکوة نہیں ادا کی ہوتی۔ اس لئےعاجزانہ عرض یہ ہیکہ اگر عملیات کا شوق رکھتے ہیں تو جب تک خود باقاعدہ زکوة نہ دیں صرف سنے سنائے یا لکھے ہوئے پر اعتبار کرکے مفت میں نقصان نہ کریں نہ اپنا نہ اپنے کسی معتقد کا ہاں اگر یقین ہو کہ جو شخص اجازت دے رہا ہے وہ صاحب زكوة ہے تو پھر ضرور اثر ہوگا۔
زکات کے متعدد طرق ہیں اول تو یہ کہ جو عمل ہمیں پڑھنا ہے صرف اسی کی زکوة دیں ۔
ایک یہ کہ حروف کی زکوة دی جائے پھر علیحدہ کسی عمل کے لئے زکوة کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔
حروف کی زکوة دینا اگرچہ كافی مشکل کام ہے لیکن حقیقت میں عامل وہی شخص ہے جو حروف تہجی کی زکوة دے زکوة اصغر کے عاملین مجھ جیسے نکمےتو بے تحاشہ مل جائیں گے البتہ ایسے صاحبان عمل بہت کم ہیں جنہوں نے زکات اکبر ادا کی ہوجو عامل بھی اور کامل بھی جنہیں دنیا بعد میں بھی یاد رکھتی ہے کہ کوئ مردقلندرتھاجوآج بھی دلوں میں زندہ ہے۔
خیر زکوة كے طریقے مندرجہ ذیل ہیں جو مجھ ناچیز کے ناقص علم میں ہیں.
طریقہ اول : جو عمل کو کرنا چاہتے ہیں اس کو سوا لاکھ مرتبہ پڑھ لو۔ اس عمل کے عامل بن جائیں گےعموماً چالیس دن میں زکوة کی مدت مقررکی جاتی ہے ۔
سوالاکھ مرتبہ کسی اسم یا آیت یا عمل کو چالیس دنوں میں پورا کرنے سے زکات اکبر ادا ہوجاتی ہے وہ شخص عامل ہوجاتا ہے ۔
وہ جب کبھی اس عمل کو پڑھے گا تو مکمل فائدہ ہوگاانشاءاللہ العزیز۔
یہاں میں ایک بات کی وضاحت کر دوں کہ بہت سے حضرات کے ورد میں کوئی مخصوص آیت یا اسم کئی عرصہ سے ہوتی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ جناب ہم نے سوالاکھ سے تو زیادہ ہی پڑھا ہوگا ۔ ایسے تمام حضرات کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ اعمال کا دارومدار نیت پر مبنی ہے ۔ آپ نے بے شک پڑھا ہے اور مطلوبہ عمل کی روحانیت بھی آپ سے مانوس ہوگی ، بالیقین آپ کے کئی کام غیبی طور پر انجام پاتے ہوں گے لیکن ازروئے قوانین عملیات آپ صاحب زکوة اورمجازاجازت نہیں ہیں کیونکہ آپ نے جو کچھ بھی ورد کیا زکوة کی نیت سے ہرگز نہیں کیا ۔ اس کی مثال کچھ یوں ہی ہے کہ میں لاکھوں روپیہ راہ اللہ خیرات کر دوں اور جب زکوة ادا کرنے کی بات آئے تو کہوں کہ خیرات تو کی تھی ناں نصاب زکوة سے زیادہ ہی ہوگی ، اس طرح کرنے سے ہرگز میرا شمار زكوة ادا کرنے والوں میں نہیں ہوگا.
طریقہ دوم :زکوة اصغر کا ہے ، زکوة اصغر کا عامل کسی کو اجازت نہیں دے سکتا۔
اکثر اوقات زکوة اصغر سے عمل صرف ایک مرتبہ ہی کام دیتا ہے ۔ جبکہ زکوة اکبر کا عامل کسی دوسرے فرد کو بھی اس عمل کی اجازت دے سکتا ہے ۔
زکات اصغر کا طریقه: جو عمل پڑھنا ہو اس کے اعداد بحساب ابجد نکال لیں جس قدر اعداد ہوں گے اتنی مرتبہ پڑھو ۔
خاص اصول و طریقه
طریقہ اول : جس قدر بھی حروف ہوں انہیں ہزار بار شمار کریں ۔
مثلاً عزیز میں چار حروف ہیں ۔ 4000 ہوااب 4000کو 4 سے ضرب دیا تو 16000 ہوا ۔ یہ نصاب زکوة ہےاس کا نصف 8000زكوة ہوگی اس کا نصف 4000عشر ہوگااعداد اصل کا نصف قفل کہلاتا ہے پھر دور بدور نصاب کے برابر ہوگا ۔
بذل کے سات ہزار اور ختم کے بارہ سو مقرر ہیں۔ گویا یہ سات زکاتیں سات نیتوں سے ادا کرنا ہونگی ۔اس طریقہ زکوة کی مثال
عزیز حروف 4
اعداد 4000
نصاب 16000
زکات 8000
عشر4000
قفل 2000
دوربدور16000
بذل7000
ختم1200
طریق دوم
ہر اسم کی زکوة اس طرح ادا کریں کہ
صغیر
وسیط
کبیر
نصاب
حظ
کفو
خاتم
طریقہ یہ ہے کہ اسم کے جس قدر حروف ہوں ان کو عدد صغیر کہتے ہیں مثلاً علی کے تین حروف ہیں یہ 3عدد صغیر ہوا۔
اسے (10)سے ضرب دیں تو عدد وسیط ہوگا ۔
صغیر کو 100میں ضرب دیں تو عدد کبیر ہوگا ۔
جب صغیر کو ایک ہزار سے ضرب دیں تو عدد نصاب حاصل ہوگا ۔جب عدد اسم سے ایک کم کردیں گے تو عدد حظ حاصل ہوگاجب حظ کو اصل میں جمع کریں گے تو عدد کفو حاصل ہوگاجب کفو کو اصل میں ضرب دیں گے تو خاتم حاصل ہوگا یہی نقشہ مثال سے واضح کرتا ہوں
ظفر تین حروف ہیں
صغیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 3
وسیط۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔30
کبیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔300
نصاب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔3000
حظ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔1179(ظفر اعداد 1180۔۔۔۔ ایک عدد قانون کا کم کیا )۔۔
کفو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔2359(اعداد تھے1180یعنی اصل۔۔۔۔۔۔ اس میں 1179 کو جمع کیا تو 2359)۔۔۔
ختم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔2783620(کفو کو اصل اعداد سے ضرب دیا )۔۔
طریق سوم
ہر اسم کے عدد کبیر (۱)۔۔۔۔۔۔اکبر(۲)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کبائر(۳)۔۔۔۔۔۔۔۔اکبر کبائر(۴)۔۔۔۔۔ اور عدد صغیر ، اصغر ، صغائر ، اصغر الصغائر کبیر زکوة ادا کریں ۔
طریقہ یہ ہے کہ ہر اسم کے عددکو اس کے حرف میں ضرب دیں تو عدد کبیر حاصل ہوگا
مثلاً ظفر کے عدد 1180 کو 3 سے ضرب دیا تو3540عدد کبیر ہوگئے ۔
کبیر کو تین سے ضرب دیا تو اکبر حاصل ہوگیا ۔
اکبر کو تین سے ضرب دیا توکبائر حاصل ہوا۔
کبائر کو تین سے ضرب دیا تو اکبر کبائر حاصل ہوا۔
اب صغیر کو لیں اسم کے عدد کو صغیر کہتے ہیں ۔
مثلاً ظفر کے عدد1180 صغیر ہیں اس کا نصف اصغر ہوگا ۔ اصغر کا نصف صغائر ہوگا ۔
اگر کسی عددکا صحیح نصف نہ ہو سکے ایک حصہ کم یا ایک حصہ زیادہ پر ملے تو نصف کمتر ناقص اور نصف زائد کامل کہلاتا ہے ۔
اس لئے علماء نصف ناقص کو ترک کردیتے ہیں اور نصف زائد کو اختیار کرلیتے ہیں ۔
لیجئے اس کی مثال
ظفر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 1180۔۔
کبیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔3580۔
اکبر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔10620۔
کبائر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔31860۔
اکبرکبائر۔۔۔۔۔95580۔
اصغر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔590۔
صغائر۔۔۔۔۔۔۔259۔
اصغر صغائر۔۔۔۔۔148۔
ان طرىقه ذكوة میں اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ ہر زكوة کے لئے علیحدہ نیت کریں اور اس کی روزانہ مقدار بھی مقرر کرلیں
اس میں نقص واقع نہ ہونے دیں ۔ لیکن یہ زکوة متواتر بغیر وقفہ کے ادا کریں ۔
کبیر کے فوراً بعد اکبر کی زکوة دیں ۔ سات دنوں میں سات زکاتیں ادا کی جا سکتی ہیں ۔
جو عدد بڑے ہوں انہیں مقررہ دنوں پر تقسیم کرلیں گے تو زکوةکی مدت کچھ بڑھ جائے گی۔
عمدہ یہ ہیکہ دوران زکوة پرہیز جلالی و جمالی کریں اگر ہمت جواں ہوتو کیونکہ طریقہ سلف سالحین و سنت عاملین کاملین ہے
لیکن میرے نزدیک اس کے ساتھ روزہ رکھ لیا جاۓ تو کماحقہ فائدہ ہوگاہاں اگرصحت اورحالات اجازت نہیں دیتے بغیر پرہیزکے عمل کریں محرمات سے بچیں جوچیزیں صاحب شرع نے حلال قرار ددی ہیں کھا پی سکتے ہیں البتہ گوشت وغیرہ و بدبودار اشیاءاوروظیفہ زوجیت سے پرہیز کرلیں تونہایت عمدہ و بہتر ہے
زکوة کا آغاز کرنے کے لئے اسی کے مطابق مہینہ انتخاب کریں ان کی عناصری تقسیم بھی بروج کی طرح ہی ہے ۔
ماہ ہائے آتشی ۔۔۔۔۔۔محرم الحرام ۔۔۔۔۔ جمادی الاول ۔۔۔۔ رمضان المبارک ۔
ماہ ہائے خاکی ۔۔۔۔۔ صفر المظفر ۔۔۔۔۔ جمادی الثانی ۔۔۔۔ شوال المکرم۔
ماہ ہائے بادی ۔۔۔۔۔ ربیع الاول ۔۔۔۔۔۔۔ رجب المرجب ۔۔۔۔ ذیقعد۔
ماہ ہائے آبی ۔۔۔۔۔۔۔ ربیع الثانی ۔۔۔۔۔۔۔۔ شعبان المعظم ۔۔۔۔۔۔ ذی االحج
نوٹ:آتشی و بادی بروج نر ہیں ۔۔ خاکی و آبی مادہ ہیں ۔
جس وقت ماہ کا انتخاب کریں تو اس میں ان تواریخ کا خیال رکھیں جو اس ماہ میں عمل یا زکات کے لئے سعد نہیں ہیں یعنی ان تواریخ میں عمل کی ابتداء نہ کریں۔
محرم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 11 اور 14
صفر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 2 ، 11 ، 20
ربیع الاول ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 4 ، 10 ، 20 ۔
ربیع الثانی ۔۔۔۔۔۔۔۔ 5، 11 ، 21 ۔
جمادی الاول ۔۔۔۔۔۔۔ 10 ، 11 ، 28
جمادی الثانی ۔۔۔۔۔۔۔ 1 ، 11 ، 28 ۔
رجب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 11 ، 12، 13 ۔
شعبان ۔۔۔۔۔۔۔۔ 14 ، 20 ، 26 ۔
رمضان ۔۔۔۔۔ 3 ، 12 ، 24 ۔
شوال ۔۔۔۔۔۔۔۔ 2 ، 7 ، 8 ۔
ذیقعد۔۔۔۔۔۔۔ 2 ، 6 ، 8 ۔
ذوالحجہ ۔۔۔۔ 8 ، 20، 28۔
یہ چیزیں میں نے اپنے ناقص علم ومطالعہ کے حساب سے بیان کی ہیں صاحب علم وفن کواس سے اختلاف بھی ہو سکتا ہے.
اللہ کریم ہم سب کو علم لدنی عطا فرماۓ اور کماحقہ عمل کی توفیق بھی بخشے تمام احباب میرے حق میں میرے والدین کے حق میں میرے اساتذہ اور تمام امت کے حق میں دعا فرما دیں جزاکم اللہ احسن الجزاء
طالب دعا
السلام وعلیکم ورحمة الله وبركة!!!
قحط الرجال کا زمانہ ہےآج کے دورمیں سائیلین کم اور عاملین زیادہ ملتے ہیں گویا ہر شخص افلاطون زماں نظر آتا ہے. اسی لئے آج اس مضمون کو پیش کیا جا رہا ہے کہ زکوة كے حوالہ سے میرے ایک محترم بھائ نے سوال کیا تھافوری جواب نہ دے پایااپنی سستی ومصروفیت کی بنا پر دیری کیلیے احباب سے معذرت خواہ ہوں .
طریقہ زکوة بہ سلسلہ عملیات
جب تک کسی عمل کی زکوة ادا نہیں کی جاتی یا صاحب زکوة کی اجازت نہیں ہوتی تو عمل میں اثر پیدانہیں ہوتا ۔ اکثر احباب عملیات پڑھتے ہیں لیکن فائدہ نہیں ہوتاکتب بینی اورمطالعہ اچھا مشغلہ ہے مگرعملیات ڈاکٹری فیلڈ سے بھی نازک ہے جیسے کوئ ڈاکٹری کی کتاب پڑھ کراوپن ہارٹ سرجری نہیں کرسکتا ویسے ہی اس نازک فیلڈ میں ہے کہ آپ بغیر استاذ کی اجازت ومحنت وتجربہ کے عامل نہیں بن سکتے ہاں ایسے عامل وجہ بدنامی ضرور ہیں اس مقدس خدمت کے ۔ بعض احباب صاحب کتاب سے اجازت لیتے ہیں وہ اجازت تو دے دیتے ہیں لیکن اکثریت ان میں ایسی ہوتی ہے جنہوں نے خود بھی زکوة نہیں دی ہوتی اور بعض کتب بینی کے بعداپنے آپ کوعامل کامل سمجھ کراجازات کادائرہ ان عملوں کاوسیع سےوسیع ترکرتے جاتے ہیں جن عملوں کی خودبھی زکوة نہیں ادا کی ہوتی۔ اس لئےعاجزانہ عرض یہ ہیکہ اگر عملیات کا شوق رکھتے ہیں تو جب تک خود باقاعدہ زکوة نہ دیں صرف سنے سنائے یا لکھے ہوئے پر اعتبار کرکے مفت میں نقصان نہ کریں نہ اپنا نہ اپنے کسی معتقد کا ہاں اگر یقین ہو کہ جو شخص اجازت دے رہا ہے وہ صاحب زكوة ہے تو پھر ضرور اثر ہوگا۔
زکات کے متعدد طرق ہیں اول تو یہ کہ جو عمل ہمیں پڑھنا ہے صرف اسی کی زکوة دیں ۔
ایک یہ کہ حروف کی زکوة دی جائے پھر علیحدہ کسی عمل کے لئے زکوة کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔
حروف کی زکوة دینا اگرچہ كافی مشکل کام ہے لیکن حقیقت میں عامل وہی شخص ہے جو حروف تہجی کی زکوة دے زکوة اصغر کے عاملین مجھ جیسے نکمےتو بے تحاشہ مل جائیں گے البتہ ایسے صاحبان عمل بہت کم ہیں جنہوں نے زکات اکبر ادا کی ہوجو عامل بھی اور کامل بھی جنہیں دنیا بعد میں بھی یاد رکھتی ہے کہ کوئ مردقلندرتھاجوآج بھی دلوں میں زندہ ہے۔
خیر زکوة كے طریقے مندرجہ ذیل ہیں جو مجھ ناچیز کے ناقص علم میں ہیں.
طریقہ اول : جو عمل کو کرنا چاہتے ہیں اس کو سوا لاکھ مرتبہ پڑھ لو۔ اس عمل کے عامل بن جائیں گےعموماً چالیس دن میں زکوة کی مدت مقررکی جاتی ہے ۔
سوالاکھ مرتبہ کسی اسم یا آیت یا عمل کو چالیس دنوں میں پورا کرنے سے زکات اکبر ادا ہوجاتی ہے وہ شخص عامل ہوجاتا ہے ۔
وہ جب کبھی اس عمل کو پڑھے گا تو مکمل فائدہ ہوگاانشاءاللہ العزیز۔
یہاں میں ایک بات کی وضاحت کر دوں کہ بہت سے حضرات کے ورد میں کوئی مخصوص آیت یا اسم کئی عرصہ سے ہوتی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ جناب ہم نے سوالاکھ سے تو زیادہ ہی پڑھا ہوگا ۔ ایسے تمام حضرات کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ اعمال کا دارومدار نیت پر مبنی ہے ۔ آپ نے بے شک پڑھا ہے اور مطلوبہ عمل کی روحانیت بھی آپ سے مانوس ہوگی ، بالیقین آپ کے کئی کام غیبی طور پر انجام پاتے ہوں گے لیکن ازروئے قوانین عملیات آپ صاحب زکوة اورمجازاجازت نہیں ہیں کیونکہ آپ نے جو کچھ بھی ورد کیا زکوة کی نیت سے ہرگز نہیں کیا ۔ اس کی مثال کچھ یوں ہی ہے کہ میں لاکھوں روپیہ راہ اللہ خیرات کر دوں اور جب زکوة ادا کرنے کی بات آئے تو کہوں کہ خیرات تو کی تھی ناں نصاب زکوة سے زیادہ ہی ہوگی ، اس طرح کرنے سے ہرگز میرا شمار زكوة ادا کرنے والوں میں نہیں ہوگا.
طریقہ دوم :زکوة اصغر کا ہے ، زکوة اصغر کا عامل کسی کو اجازت نہیں دے سکتا۔
اکثر اوقات زکوة اصغر سے عمل صرف ایک مرتبہ ہی کام دیتا ہے ۔ جبکہ زکوة اکبر کا عامل کسی دوسرے فرد کو بھی اس عمل کی اجازت دے سکتا ہے ۔
زکات اصغر کا طریقه: جو عمل پڑھنا ہو اس کے اعداد بحساب ابجد نکال لیں جس قدر اعداد ہوں گے اتنی مرتبہ پڑھو ۔
خاص اصول و طریقه
طریقہ اول : جس قدر بھی حروف ہوں انہیں ہزار بار شمار کریں ۔
مثلاً عزیز میں چار حروف ہیں ۔ 4000 ہوااب 4000کو 4 سے ضرب دیا تو 16000 ہوا ۔ یہ نصاب زکوة ہےاس کا نصف 8000زكوة ہوگی اس کا نصف 4000عشر ہوگااعداد اصل کا نصف قفل کہلاتا ہے پھر دور بدور نصاب کے برابر ہوگا ۔
بذل کے سات ہزار اور ختم کے بارہ سو مقرر ہیں۔ گویا یہ سات زکاتیں سات نیتوں سے ادا کرنا ہونگی ۔اس طریقہ زکوة کی مثال
عزیز حروف 4
اعداد 4000
نصاب 16000
زکات 8000
عشر4000
قفل 2000
دوربدور16000
بذل7000
ختم1200
طریق دوم
ہر اسم کی زکوة اس طرح ادا کریں کہ
صغیر
وسیط
کبیر
نصاب
حظ
کفو
خاتم
طریقہ یہ ہے کہ اسم کے جس قدر حروف ہوں ان کو عدد صغیر کہتے ہیں مثلاً علی کے تین حروف ہیں یہ 3عدد صغیر ہوا۔
اسے (10)سے ضرب دیں تو عدد وسیط ہوگا ۔
صغیر کو 100میں ضرب دیں تو عدد کبیر ہوگا ۔
جب صغیر کو ایک ہزار سے ضرب دیں تو عدد نصاب حاصل ہوگا ۔جب عدد اسم سے ایک کم کردیں گے تو عدد حظ حاصل ہوگاجب حظ کو اصل میں جمع کریں گے تو عدد کفو حاصل ہوگاجب کفو کو اصل میں ضرب دیں گے تو خاتم حاصل ہوگا یہی نقشہ مثال سے واضح کرتا ہوں
ظفر تین حروف ہیں
صغیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 3
وسیط۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔30
کبیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔300
نصاب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔3000
حظ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔1179(ظفر اعداد 1180۔۔۔۔ ایک عدد قانون کا کم کیا )۔۔
کفو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔2359(اعداد تھے1180یعنی اصل۔۔۔۔۔۔ اس میں 1179 کو جمع کیا تو 2359)۔۔۔
ختم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔2783620(کفو کو اصل اعداد سے ضرب دیا )۔۔
طریق سوم
ہر اسم کے عدد کبیر (۱)۔۔۔۔۔۔اکبر(۲)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کبائر(۳)۔۔۔۔۔۔۔۔اکبر کبائر(۴)۔۔۔۔۔ اور عدد صغیر ، اصغر ، صغائر ، اصغر الصغائر کبیر زکوة ادا کریں ۔
طریقہ یہ ہے کہ ہر اسم کے عددکو اس کے حرف میں ضرب دیں تو عدد کبیر حاصل ہوگا
مثلاً ظفر کے عدد 1180 کو 3 سے ضرب دیا تو3540عدد کبیر ہوگئے ۔
کبیر کو تین سے ضرب دیا تو اکبر حاصل ہوگیا ۔
اکبر کو تین سے ضرب دیا توکبائر حاصل ہوا۔
کبائر کو تین سے ضرب دیا تو اکبر کبائر حاصل ہوا۔
اب صغیر کو لیں اسم کے عدد کو صغیر کہتے ہیں ۔
مثلاً ظفر کے عدد1180 صغیر ہیں اس کا نصف اصغر ہوگا ۔ اصغر کا نصف صغائر ہوگا ۔
اگر کسی عددکا صحیح نصف نہ ہو سکے ایک حصہ کم یا ایک حصہ زیادہ پر ملے تو نصف کمتر ناقص اور نصف زائد کامل کہلاتا ہے ۔
اس لئے علماء نصف ناقص کو ترک کردیتے ہیں اور نصف زائد کو اختیار کرلیتے ہیں ۔
لیجئے اس کی مثال
ظفر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 1180۔۔
کبیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔3580۔
اکبر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔10620۔
کبائر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔31860۔
اکبرکبائر۔۔۔۔۔95580۔
اصغر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔590۔
صغائر۔۔۔۔۔۔۔259۔
اصغر صغائر۔۔۔۔۔148۔
ان طرىقه ذكوة میں اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ ہر زكوة کے لئے علیحدہ نیت کریں اور اس کی روزانہ مقدار بھی مقرر کرلیں
اس میں نقص واقع نہ ہونے دیں ۔ لیکن یہ زکوة متواتر بغیر وقفہ کے ادا کریں ۔
کبیر کے فوراً بعد اکبر کی زکوة دیں ۔ سات دنوں میں سات زکاتیں ادا کی جا سکتی ہیں ۔
جو عدد بڑے ہوں انہیں مقررہ دنوں پر تقسیم کرلیں گے تو زکوةکی مدت کچھ بڑھ جائے گی۔
عمدہ یہ ہیکہ دوران زکوة پرہیز جلالی و جمالی کریں اگر ہمت جواں ہوتو کیونکہ طریقہ سلف سالحین و سنت عاملین کاملین ہے
لیکن میرے نزدیک اس کے ساتھ روزہ رکھ لیا جاۓ تو کماحقہ فائدہ ہوگاہاں اگرصحت اورحالات اجازت نہیں دیتے بغیر پرہیزکے عمل کریں محرمات سے بچیں جوچیزیں صاحب شرع نے حلال قرار ددی ہیں کھا پی سکتے ہیں البتہ گوشت وغیرہ و بدبودار اشیاءاوروظیفہ زوجیت سے پرہیز کرلیں تونہایت عمدہ و بہتر ہے
زکوة کا آغاز کرنے کے لئے اسی کے مطابق مہینہ انتخاب کریں ان کی عناصری تقسیم بھی بروج کی طرح ہی ہے ۔
ماہ ہائے آتشی ۔۔۔۔۔۔محرم الحرام ۔۔۔۔۔ جمادی الاول ۔۔۔۔ رمضان المبارک ۔
ماہ ہائے خاکی ۔۔۔۔۔ صفر المظفر ۔۔۔۔۔ جمادی الثانی ۔۔۔۔ شوال المکرم۔
ماہ ہائے بادی ۔۔۔۔۔ ربیع الاول ۔۔۔۔۔۔۔ رجب المرجب ۔۔۔۔ ذیقعد۔
ماہ ہائے آبی ۔۔۔۔۔۔۔ ربیع الثانی ۔۔۔۔۔۔۔۔ شعبان المعظم ۔۔۔۔۔۔ ذی االحج
نوٹ:آتشی و بادی بروج نر ہیں ۔۔ خاکی و آبی مادہ ہیں ۔
جس وقت ماہ کا انتخاب کریں تو اس میں ان تواریخ کا خیال رکھیں جو اس ماہ میں عمل یا زکات کے لئے سعد نہیں ہیں یعنی ان تواریخ میں عمل کی ابتداء نہ کریں۔
محرم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 11 اور 14
صفر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 2 ، 11 ، 20
ربیع الاول ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 4 ، 10 ، 20 ۔
ربیع الثانی ۔۔۔۔۔۔۔۔ 5، 11 ، 21 ۔
جمادی الاول ۔۔۔۔۔۔۔ 10 ، 11 ، 28
جمادی الثانی ۔۔۔۔۔۔۔ 1 ، 11 ، 28 ۔
رجب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 11 ، 12، 13 ۔
شعبان ۔۔۔۔۔۔۔۔ 14 ، 20 ، 26 ۔
رمضان ۔۔۔۔۔ 3 ، 12 ، 24 ۔
شوال ۔۔۔۔۔۔۔۔ 2 ، 7 ، 8 ۔
ذیقعد۔۔۔۔۔۔۔ 2 ، 6 ، 8 ۔
ذوالحجہ ۔۔۔۔ 8 ، 20، 28۔
یہ چیزیں میں نے اپنے ناقص علم ومطالعہ کے حساب سے بیان کی ہیں صاحب علم وفن کواس سے اختلاف بھی ہو سکتا ہے.
اللہ کریم ہم سب کو علم لدنی عطا فرماۓ اور کماحقہ عمل کی توفیق بھی بخشے تمام احباب میرے حق میں میرے والدین کے حق میں میرے اساتذہ اور تمام امت کے حق میں دعا فرما دیں جزاکم اللہ احسن الجزاء
طالب دعا
No comments:
Post a Comment